دو فکری و عشقیہ غزلیں ✧ غلام مزمل عطاؔ اشرفی

دو فکری و عشقیہ غزلیں – غلام مزمل عطاؔ اشرفی

دو فکری و عشقیہ غزلیں

غلام مزمل عطاؔ اشرفی – سہرسہ، بہار، انڈیا
جدید اردو غزل میں جہاں داخلی کشمکش، خود آگہی، ارادۂ محکم اور عشق کی باریک کیفیات ایک ساتھ جلوہ گر ہوں، وہاں سخن نہ صرف اظہارِ احساس رہتا ہے بلکہ قاری کے لیے آئینۂ فکر بھی بن جاتا ہے۔ زیرِ نظر دونوں غزلیں غلام مزمل عطاؔ اشرفی کے اسی مزاج کی نمائندہ ہیں۔ پہلی غزل میں شکستہ پائی کے باوجود عزم، صبر، خود اعتمادی اور فکر کی ثبات کو علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے، جہاں شاعر اپنی ذات کو ہی کارواں، آسرا اور نوحیٔ سفر قرار دیتا ہے۔ دوسری غزل میں اشاروں، نگاہوں، خاموش لبوں اور نظاروں کے وسیلے سے گفتگو کی وہ لطیف دنیا آباد کی گئی ہے جس میں لفظ پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور دل، نظر اور احساس خود زبان بن کر بولنے لگتے ہیں۔

غزل

ثباتِ فکر، ارادۂ محکم اور سفرِ حیات کا علامتی بیان
بڑا طویل سفر ہے شکستہ پا ہوں میں مگر ارادۂ پختہ سے چل رہا ہوں میں
ہجوم درد میں جینے کا حوصلہ پا کر جہان صبر کے دریا کا نا خدا ہوں میں
سوال زیست کے ہر موڑ پر نہیں رکتا جو خود جواب بنے وہ ہی مدعا ہوں میں
کسی سہولتِ فانی کا میں اسیر نہ ہوں ثبات ضد کی حکایت کا سلسلہ ہوں میں
نہ آسماں سے توقع، نہ غیب پر تکیہ میں اپنی راہ میں خود ایک آسرا ہوں میں
گزر گئے کئی موسم، نہ زاویہ بدلا ثبات فکر کی لو کا ضیا نما ہوں میں
عطاؔ یہ گردِ سفر، تاجِ بے زوال ہوں میں گریں جو راہ میں آ کر وہ قافلہ ہوں میں

غزل

اشاروں، نگاہوں اور خاموش مکالموں کی دنیائے غزل
مجھکو تو بھاتا ہے یہ اشاروں سے گفتگو نظریں گھما کے کر لو، ہزاروں سے گفتگو
پلکوں کی چلمنوں میں نہاں نغمۂ طلب کرتی ہے دھڑکنیں بھی کناروں سے گفتگو
تفسیر حسن ہیں وہ ادا، مسکراہٹیں خاموش لب سے کرتی پیاروں سے گفتگو
زلفوں کے پیچ و تاب سے ہر شب مہک اٹھی کرنے لگا گھٹا بھی ستاروں سے گفتگو
اک نیم وا نگاہ میں صد موسموں کا کیف کرتی ہے روح جا کے بہاروں سے گفتگو
لفظوں کا اعتبار بھی آخر فریب تھا سچی ہے بس نظر کی نظاروں سے گفتگو
لفظوں میں بات عشق کی ہوتی کہاں عطاؔ زیبا تو عشق میں ہے اشاروں سے گفتگو

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post